حضرت موسیٰ ؑنے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے
May 30, 2021
اسلامی معلومات
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا’’ یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگےتو کیا مانگے؟‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’صحت‘‘.میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا‘صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبتاور منصوبہ بندی انسان کو صحت مندرکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوریکائنات بنانے کے لیے نہیں کی-ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں
تو عقل حیران رہ جاتی ہے.ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے. یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا جراثیم پیدا کرتا ہے
جو ہمارےدل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘مثلاً دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی
یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں.یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیںمگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑےہوتے ہیں-
یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نه اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نه نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں-سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں
اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘مثلاً ہمارا جگرجسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے
اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسےہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیںاور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں . ہم روزانہ سوتے ہیں‘ ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں
_______________________
09 Aug 2021
سوال:
اسرائیلی روایات کے متعلق ہمارے علماء(علمائے دیوبند) فرماتے ہیں کہ نہ ان روایات کی تصدیق کرنی ہے اور نہ تکذیب کرنی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اسرائیلی روایات کیا ہے یہ کہاں سے آئی ہے اور ان کی کیا پہچان ہے برائے مہربانی تفصیلی جواب عطا فرمائے۔
----
جواب:
مطلقاً اسرائیلی روایات سے مراد وہ روایات ہیں جو بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) کی کتابوں سے نقل کی گئی ہوں۔
البتہ ہمارے عرف میں جس واقعے کا ذکر یا اس کے کسی حصے کا ذکر قرآنِ مجید میں یا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو اسے اسرائیلی روایت نہیں کہاجاتا، بلکہ وہ ہمارے دینی مآخذ شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ وہ روایات جن کا ذکر بعینہ یا ان کے کسی حصے کا ذکر قرآنِ مجید میں یا رسول اللہ ﷺ سے منقول نہ ہو، انہیں اسرائیلی روایت کہا جاتاہے۔
چوں کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں میں تحریف کرچکے ہیں؛ اس لیے اُن روایات پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے جو صرف ان کی کتابوں میں موجود ہوں، چنانچہ ان روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
ان روایات کی پہچان محدثینِ کرام اور ائمہ جرح و تعدیل کا کام ہے، جو لوگ سندِ حدیث کے فن میں مہارت رکھتے ہیں وہی پہچان کر بتائیں گے کہ کون سے روایت اسرائیلیات میں سے ہیں، عوام کے لیے روایات میں سے اسرائیلی روایات کو پہچاننا ممکن نہیں ہے، اس لیے عوام کو اس بارے میں اس فن کے ماہر اہلِ علم سے ہی پوچھنا چاہیے۔ کیوں کہ بسا اوقات ایک ہی واقعہ کتبِ احادیث میں کسی صحابی سے بھی منقول ہوتاہے، لیکن پھر بھی وہ اسرائیلی روایت ہوتاہے، اور بعض مرتبہ کسی واقعے کا کوئی ایک جز یا کوئی حصہ اسرائیلی روایت ہوتاہے، جب کہ اسی واقعے کا کوئی ایک حصہ حدیثِ رسول اللہ ﷺ ہوتاہے۔
تفسير ابن كثير ط العلمية (1/ 10):
"ولهذا غالب ما يرويه إسماعيل بن عبد الرحمن السدي الكبير في تفسيره عن هذين الرجلين ابن مسعود وابن عباس، ولكن في بعض الأحيان ينقل عنهم ما يحكونه من أقاويل أهل الكتاب التي أباحها رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث قال: «بلغوا عني ولو آيةً، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدًا فليتبوأ مقع�