مولاناارشدمدنی دامت برکاتہم کی گذشتہ روزکی تقریر کےایک ٹکڑے"ظالم بننےسےاچهامظلوم بنکرمرجاو" پر سوشل میڈیاپرجاری دهمال پرایک مثبت تحریرآئی ہے.
موصوف ندوہ کے فارغ التحصیل ہیں طائف سعودی عرب میں امامت کےفرائض انجام دےرہےہیں نیز طائف انڈین ایمبیسی اسکول میں تعلیمی خدمات انجام دےرہےہیں.
.......................................
ازقلم....محمدطلحہ ندوی لکهنوی.....................
✍️#سوچ_کی_دہلیز_پر_خیالات_کی_دستک✍️
*"ظالم ہونے سے بہتر ہیکہ مظلوم بن کر مر جائیں"*
یہ وہ جملہ ہے جو ماقبل اور مابعد سے کاٹ کر سوشل میڈیا پر گردش میں ہے۔ فیس بکی ہمدردان ملت اسے پھیلا رہے ہیں۔ اسپر تحریر تک لکھی جاچکی ہے۔
ہم نے بھی صاحب تحریر پر یقین کیا۔ انکی وال پر تبصرہ کردیا۔ لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوئی۔ اصل بیان سننے کا خیال ستاتا رہا۔ اصل بیان سنا تو اپنے تبصرے پر بیحد پشیمانی ہوئی۔ اور ایک مرتبہ پھر اس بات کی توثیق ہوئی کہ کسی کی بات کو براہ راست سنے اور پڑھے بنا کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے تال کٹورا اسٹیڈیم میں نہایت ٹھنڈے اسلوب میں بیحد جامع تقریر کی۔ اس تقریر کے جملے باہم اسطرح گتھے ہوے ہیں کہ اسطرح کا کوئی ایک جملہ بھی تقریر سے الگ کرکے نہ پیش کیا جاسکتا ہے، نہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
لیکن فیس بکی ہمدردان ملت نے ایسے پیوست جملے کو اپنی فہم کا نشانہ بنایا، اور سوشل میڈیا پر لے اڑے۔
ہم حضرت مولانا محترم کا بیان من و عن پیش کر رہے۔ جس سیاق و سباق میں یہ گفتگو ہو رہی ہے، اس سے کسی طرح بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ہمکو بزدل اور مظلوم بنکر (برماوی مسلمانوں کی طرح) مرنے کو کہا جارہا تھا، یا ہجومی تشدد کے شکار شخص کو بت بننے اور وہاں موجود مسلمانوں کو تماشائی بننے کو کہا گیا ہے۔
• حضرت مدنی ملت کو عمومی طریقہ کار سمجھا رہے تھے جسکا مخصوص حالات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
میرا ایسے سبھی ہمدردان ملت سے کہنا ہے کہ اگر مولانا محترم کی بات غلط ہے تو:
• ظلم و ستم کے پہاڑ سہنے کے تیرہ سالہ اسوۂ نبوی کو بھی غلط کہیں۔
• آل یاسر کے شکووں کے جواب میں "اصبروا آل یاسر" کی تلقین کو بھی غلط کہیں۔
• حضرت بلال اور حضرت خباب کی تکلیفوں پر نبی کریم کی خاموشی کو بھی غلط کہیں۔
ظاہر ہے کسی میں ایسی ہمت نہیں۔ تو پھر یہ بتائیے:
• تیرہ سال تک اللہ نے غیبی نصرت کیوں نہیں کی؟
• اپنے پیارے حبیب اور سید الرسل تک کی تکلیف عرش سے کیوں دیکھتے رہے اور فرشتے کیوں نہیں اتارے؟
جب مسلمان ہجرت مدینہ پر مجبور ہوے تب انکی مظلومیت کا اعتراف کیا۔ انہیں دفاع کا جنگی حق الاٹ کیا۔ اپنی نصرت اور حمایت کا اعلان کیا۔
میرا سوال ہے اللہ نے یہ سب تیرہ سال بعد کیوں کیا؟
• "ماب لنچنگ/ ہجومی تشدد" حضرت صدیق اکبر، اور حضرت ابو ذر کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
• خود نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے ساتھ یہ تشدد ہوا تھا۔ لیکن زبان سے اپنے اللہ سے یہ کہا تھا:
*"اللهم إليك أشكو ضعف قوتي، وقلة حيلتي، وهواني على الناس، أرحم الراحمين، أنت أرحم الراحمين ، إلى من تكلني، إلى عدو يتجهمني، أو إلى قريب ملكته أمري، إن لم تكن غضبان علي فلا أبالي، غير أن عافيتك أوسع لي، أعوذ بنور وجهك الذي أشرقت له الظلمات، وصلح عليه أمر الدنيا والآخرة، أن تنزل بي غضبك، أو تحل علي سخطك ، لك العتبى حتى ترضى، ولا حول ولا قوة إلا بك"*
فرشتے آئے۔ تشدد کرنے والوں کو پہاڑوں کے درمیان پیس دینے کی اجازت چاہی۔ اگر جناب رسالت مآب نے (فداہ نفسی و روحی) جواب میں ہاں کردی ہوتی تو ہم اسوقت اہل طائف کے بیچ رہ کر یہ سطریں نہیں لکھ رہے ہوتے۔
کوئی بتائے گا اہل طائف کے ہاتوں ( خاکم بدہن) بظاھر ذلیل ہوکر بد دعا کیوں نہیں کی؟ کیوں کہا تھا: " أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به"۔
• کیا اہل وطن کو لیکر ہماری بھی یہی دھن اور یہی فکر رہی ہے؟
• کیا ہم اپنے قول و عمل سے "بیع دین" کے تاجر اور "عرض من الدنیا" کے متوالے نہیں بن گئے۔ ہم تو اپنوں پر اتنی بھی محنت نہ کر سکے کہ ہجومی تشدد کے وقت زبان أَحدٌ أَحدْ کے بول بول سکے!
جناب حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کے جملے کو لے اڑنے والے فیس بکی ہمدردان ملت مولوی اور غیر مولوی حضرات خدارا اس انداز نبوی پر بھی کچھ کمینٹ کریں!
"ہمہ تن گوش ہیں ہم!"